تحریر ۔ محمد عمران
(دوسرا اور آخری حصہ)
معاشرے میں اکثریہ دیکھا گیا ہے کہ جب ایک لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو اس کے ذہن میں یہ بٹھا دیا جا تا ہے کہ اس نے اپنے خاوند کو مطیع و فرمانبردار کرنا ہے ۔ جبکہ دوسری جانب لڑکے کی ماں اپنی بہو کو (جس کو وہ بہت ارمان اور چاہ سے بیاہ کر کے لائی تھی) ایسی نظروں سے ریکھنا شروع کر دیتی ہے گویا کہ اس کی بہو ، اس کے چہیتے بیٹے کو لے اڑے گی۔ ذہنوں اور دلوں میں یہ فرق آتے ہی دونوں فریقن کے نظریات تبدیل ہو جاتے ہیں وہ اخلاص، محبت اور انسیت کے جذبات ماند پڑنا شروع ہو جاتے ہیں۔ جبکہ شوہر اس صورتحال سے قطعی طور پر لاعلم ہو کر روزی ، روٹی کے چکر میں الجھا زندگی گزارنا شروع کر دیتا ہے۔ عورت کی وصف میں غالباً یہ بات سمائی جا چکی ہے کہ وہ اپنا الگ گھر لے کر اس کو ہی جنت بنائے گی۔ آنے والی بہو کا یہ نظریہ بھی اس کی زندگی خراب اور تلخ کرنے میں نہایت اہم کردار ادا کرتا ہے ۔ اگر عورت یہ با ت سمجھ لے کہ اگر وہ اپنے شوہر کو غلام بنالیے گی تو تمام عمر وہ ایک غلام کی بیو ی بن کر ہی رہے گی۔ اور اگر وہ اپنے شوہر کو بادشہ بناتی ہے تو وہ ایک ملکہ بن کر زندگی گزارے گی۔ صر ف اور صرف سوچ کا فرق ہے۔ شاد ی کے بعد اگر عورتیں تھوڑا عقلمندی کا ثبوت دیں اور ساس کو اپنی ماں کی جگہ، سسر کو باپ کی جگہ، دیو ر کو بھائی، نند کو بہن سمجھنا شروع کردیں تو آدھے سے زیادہ مسائل یہیں پر حل ہو جاتے ہیں۔ اسی طرز عمل کا سسرال پر بہت اچھا اثر پڑتا ہے۔اور زندگی آسان ہو جائے گی۔اگر کبھی بحثیت بہو یابیوی عورتوں کے دلوں میں کوئی شیطانی وسوسےگھر کرنے لگیں تو انہیں چاہیے کہ وہ اللہ پاک سے مدد مانگیں اور ان نیک عورتوں کی ازدواجی زندگی کو یاد کریں اور ان کے نور حیات سے اپنی ازدواجی زندگی کو روشن کریں۔ جن کی پہنچان ایک مکمل بیوی کے روپ میں ہوتی ہے۔ جنہوں نے شوہر کی محبت کو دینی فریضہ اور اس کی دلی جوئی کو عبادت سمجھ کر ادا کیا۔ کہیں اور جانے کی ضرورت نہیں صرف پیارے نبی سید نا محمد رسول اللہ صلی اللہ وسلم کی ازدواجی زندگی کو سامنے رکھیں۔ مثال کے طور پر اُم المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا شمار مکہ کے گنے چنے دولت مندوں میں ہوتا تھا مگر اپنے شوہر سرور کائنات صلی اللہ وسلم سے محبت اور دل جوئی کا جو سلوک انہوں نے پیش کیا اور کی نظیر نہیں ملتی۔ اُم المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے بحثیت بیوی اپنے شوہر تاجدار کائنات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جس محبت اورالفت کے پھول نچھاور کیے او رمشکل ترین وقت میں بھی آپ پر جس خوش اعتمادی کا اظہار کیا وہ آج کی عصمت سوز دنیا میں ہر عورت کے لیے نمونہ ہے ۔ رسول پاک صلی اللہ وسلم کی عزیز ترین بیٹی سید فاطمہ زہرا رضی اللہ عنہا نے شوہر کی جو خدمت کی ہے اور تنگ دستی میں جو صبر وتحمل کا مظاہرہ کیا ہے وہ بھی مثالی ہے۔ کیا اس کا کوئی بدل پیش کر سکتا ہے؟ اس لیے عورتوں کو چاہیے کہ اپنی خاندانی زندگی، خانگی اور معاشرتی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے ان عظیم اسلامی عورتوں کی زندگی کو اپنی نمونہ بنائیں اور دینا اور آخرت کے لیے ان کے اخلاق و کردار کی ضیاوں سے اپنی بے رنگ زندگی میں چار چاند لگائیں، تبھی وہ پروقار ہو سکتی ہیں او کائنات میں محبت اور الفت کا رنگ بھر کر اس شعر کو سچ ثابت کر سکتی ہیں۔
وجود زن سے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز ِدروں
آپ کی رائے ہمارے لیے بہت قیمتی ہے ۔
Mashallah. Bht achay