حضرت انسان کی پیدائش کے بعد ان کی تنہائی ختم کرنے کے لیے اللہ پاک نے حضرت حواؑ کو تخلیق کیا ۔پھر بعدازاں ان کو دنیا میں بھیج دیا گیا۔ حکم الہٰی سے ان کی اولاد دنیا میں پھیلتی چلی گئی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وسائل بڑھتےچلے گئے اور جغرافیائی سختیاں بھی کم ہونے لگیں۔پیش آمدہ مسائل کے حل بھی تلاش کیا جاتا رہا اور یوں تہذیب و تمدن کا دور شروع ہو گیا۔ تعلیم عام ہو گئ ۔ کاروبار عام ہو گئے۔ زندگی کی آسائشیں بڑھتی چلی گئیں۔مرد کا کام ازل سے کھانے کے لیے بندوبست کرنا اور حاصل کردہ وسائل کو سنبھالنا عورت کی ذمہ داریاں ٹھہریں۔ جو کہ آج بھی مرد اپنے کام سے وابستہ ہے۔ لیکن جب عورت کی بات کی جاتی ہے تو ایک عورت کی زندگی کے دو رُخ نظرآتے ہیں۔ ایک ہے میکہ اور دوسرا سسرال ۔ عورتوں کی ایک بہت بڑی تعداد ان مسائل کا شکار نظر آتی ہے۔ اگر بادی النظر دیکھا جائے تو پہلے ہم ایک عورت کی شادی سے پہلے کی زندگی پر نظر ڈالتے ہیں۔
ما ں باپ کے گھر کی زندگی جہاں بچپن اپنی ان گنت یادیں لے کر رخصت ہو رہا ہوتا ہے وہیں تعلیم و تربیت تشکیل پاتی ہے اور اس گھر میں ماں، باپ، بہن ، بھائی، چچا ، چچی غرض مختلف رشتوں کے بیچ میں اسے رہنا پڑتا ہے۔ جہا ں نہ تو وہ اپنی مرضی سے زندگی گزارتی ہے بلکہ گھروالوں کی جا نب سے مکمل تعاون ملنے اور غلطی ہونے کے بعد اسے نظر انداز کیے جانے کی بیحد مثالیں ملتی ہیں۔ اور غلطی ہونے پر والدین ، بہن ، بھائیوں کی جانب سے ناراضگی اور سختی کو بھی برداشت کر لیا جاتا ہے۔
شادی کے بعد کی زندگی۔
شادی کے بعد کی زندگی عورتوں کی زندگی میں بیحد اہمیت رکھتی ہےجو کہ عورتوں کے لیےیہ مرحلہ “پل صراط” سے ہرگز کم نہیں۔کیوں کہ زندگی کے اس دوراہے پر کافی سمجھ بوجھ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ذرا سے لاپرواہی، غلطی اور ناسمجھی بعض اوقات کسی بڑے طوفان کا پیش خمیہ بن جاتی ہے۔ حالانکہ شادی سے پہلے بھی گھر میں ویسے رشتے تھے اور اب شادی کے بعد بھی سسرال میں وہی رشتے ہوتے ہیں۔ اگر سسرال میں عورتیں اپنے شو ہر کو واقعی شوہر کا درجہ دیں ، سسر کو باپ اور ساس کو ماں ، دیور کو بھائی اورنند کو اپنی بہن سمجھیں تو اس عقلمندی سے عورت بہت ہی الجھنوں سے بچ سکتی ہے۔ اس طرح سسرال والے عورت کے اس روپ کو سراہتے ہیں اور اپنی جانب سے اپنی بہو کو حتی المکان سکھ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہاں تک تو یہ بات ٹھیک ہے مگر ہوتا اصل میں یوں ہے کہ عورت سسرال میں رہتے ہوئے اپنے مسائل گھر جا کر اپنے والدین اور بہن بھائیوں کو بتاتی ہے جس سے رفتہ رفتہ رشتوں کی تناوکی کیفیت آنا شروع ہو جاتی ہے۔ اور جب رشتوں میں فرق آنا شروع ہو جائے تو دوسری جانب سے بھی کشیدگی بہت حد تک متوقع ہو جا تی ہے۔ پھر عورت سسرال کی ہر چیز حتیٰ کے رویے بھی اپنے میکہ سے موازنہ کرنا شروع کر دیتی ہے۔ اور یوں عورت کے اپنے دل میں رشتوں کے فرق کا بیچ اگنا شروع کر دیتا ہے۔اورپھر عورت کے اپنے رویے میں فرق آنے کے باعث تنقیدی رویے پروان چڑھتے ہیں ۔رفتہ رفتہ وہ عورت جیسے بڑی چاہ سے اور محبت سے گھر کی دہلیز کے اندر لایا گیا تھا وہاں نفرتوں او ر حسد کے جذبات سے رشتوں میں آگ بھڑکنا شروع کر دیتی ہے اور یوں اکثر و بیشر نہ صرف مار کٹائی شروع ہو جاتی ہے بلکہ بعض و اوقات قتل یا طلاق جیسی نوبت بھی آجاتی ہے۔
(جاری ہے)
This is very true picture of this society. I completely agree with this.
پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ واقعی ہمارے معاشرے میں ایسا ہی ہو رہا ہے۔
I have gone through this topic and found it very interesting. I realized that it has been written after the closed and keen observation of the society. I appreciate your struggle.
Bohat khoob. very nice.
Excellent.
Bohat Acha but mery khayal main zayada ghalti orat ki hi hoti ha. Anyhow, it is realistic.